In eye poetry, the poet creates colorful images or moments using words that are exact and expressive, giving readers a high sensation of touch with the subject matter. Eye poetry can deliver imagery that is either extremely powerful or just narrative, depending on the poet’s intention.
To improve the words’ aesthetic effect, this type of poetry frequently uses a large amount of wordplay, including representation, similes, and similes. Eye poetry encourages the reader to completely lose themselves in the world that can be seen on the page by connecting to their senses and imagination.
In general, eye poetry allows readers to view the world through the poet’s unique viewpoint while celebrating the beauty of words and the power of observation. If you want more Poetry then visit Romantic Shayari.

Eyes Shayari
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں
خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
قافلے راہ بھول جاتے ہیں
آنکھیں جو اٹھائے تو محبت کا گماں ہو
نظروں کو جھکائے تو شکایت سی لگے ہے
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
آنکھ سے آنکھ جب نہیں ملتی
دل سے دل ہم کلام ہوتا ہے
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے
شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا
لڑنے کو دل جو چاہے تو آنکھیں لڑائیے
ہو جنگ بھی اگر تو مزے دار جنگ ہو
پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے
دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو
مندروں میں چراغ جلتے ہیں
2 line Aankhen Shayari in Urdu

آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے
لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا
لوگ نظروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنا
ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی
جب ترے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں
ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسن یار
کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی
رات کو سونا نہ سونا سب برابر ہو گیا
تم نہ آئے خواب میں آنکھوں میں خواب آیا تو کیا
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک لہر سی ہر دم رہتی ہے
ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا
اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا
اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں
ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
آ جائے نہ دل آپ کا بھی اور کسی پر
دیکھو مری جاں آنکھ لڑانا نہیں اچھا
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
نہ وہ صورت دکھاتے ہیں نہ ملتے ہیں گلے آ کر
نہ آنکھیں شاد ہوتیں ہیں نہ دل مسرور ہوتا ہے
Top Sad Eyes Poetry

آنکھیں ساقی کی جب سے دیکھی ہیں
ہم سے دو گھونٹ پی نہیں جاتی
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری مے خواری ابھی تک راز ہے
اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں
یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں
ہم محبت کا سبق بھول گئے
تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے
آنکھیں نہ جینے دیں گی تری بے وفا مجھے
کیوں کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے
شام سے ان کے تصور کا نشہ تھا اتنا
نیند آئی ہے تو آنکھوں نے برا مانا ہے
کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرح حیات ہو گئی ہے
دیکھی ہیں بڑے غور سے میں نے وہ نگاہیں
آنکھوں میں مروت کا کہیں نام نہیں ہے
دلوں کا ذکر ہی کیا ہے ملیں ملیں نہ ملیں
نظر ملاؤ نظر سے نظر کی بات کرو
ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
بچھی تھیں ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں
کوئی آنسو گرا تھا یاد ہوگا
Deep Eyes Poetry

میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی
بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے
ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں
مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا
ڈھونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں
وہ تماشا نظر نہیں آتا
آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں
مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں
کہیں نہ ان کی نظر سے نظر کسی کی لڑے
وہ اس لحاظ سے آنکھیں جھکائے بیٹھے ہیں
یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے
بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا
رہ گئے لاکھوں کلیجہ تھام کر
آنکھ جس جانب تمہاری اٹھ گئی
آنکھ سے آنکھ ملانا تو سخن مت کرنا
ٹوک دینے سے کہانی کا مزا جاتا ہے
اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے