Faiz Ahmad Faiz (1911–1984) was a prominent Pakistani poet, writer, and intellectual, widely regarded as one of the most celebrated Urdu-language poets of the 20th century. Born on February 13, 1911, in British India (now present-day Pakistan), Faiz Ahmad Faiz literary contributions extended beyond poetry to include journalism, philosophical essays, and political activism.
Faiz Ahmad Faiz poetry is known for its profound themes, eloquent language, and a strong emphasis on social justice and human rights. He emerged as a leading voice in the Progressive Writers’ Movement in South Asia, advocating for socio-economic equality and addressing issues of oppression and injustice.
His verses often touched upon love, revolution, and the struggles of the common people, earning him a reputation as a poet of the masses.
Throughout his life, Faiz Ahmad Faiz faced political turmoil, imprisonment, and exile due to his association with progressive and leftist causes. Despite the challenges, his poetry remained a source of inspiration and solace for many. Some of his notable works include “Nuskha Haa-e-Wafa” (The Manuscript of Love) and “Zindaan-Nama” (The Prison Notebook).
Faiz’s impact extends far beyond the literary realm, as he left an indelible mark on the cultural and political landscape of the Indian subcontinent. His legacy endures through his influential poetry and his unwavering commitment to social justice. Explore more poetry, ghazals & quotes of another Poets.
Faiz Ahmad Faiz Shayari
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی۔
ڈرتا ہوں کہنے سے کہ محبت ہم تم سے
مری زندگی بدل دے گا ترا اقرار بھی انکار بھی۔
یہ عہد ترک محبت ہے کس کےلئے آخر
سکون قلب ادھر بھی نھین ادھر بھی نھیں۔
آئو کہ آج ختم ہوئی داستان عشق
اب ختم عاشقی کے فسانے سنائیں ہم۔
سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
وہاں جائیں یا نا جائیں ، جائیں کہ جائیں ہم
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
Faiz Ahmad Faiz Poetry
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
Bë-dam huë bimar dava kyun nahi dëtë
Tum acchë masiha ho shifa kyun nahi dëtë.
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
Raat yun dil mëin tëri khoi hui yaad aayi
Jaisë viranë mëin chupkë së bahar aa jaayë.
جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
Jo nafas tha khar-ë-gulu bana jo uthë thë haath lahu huë
Woh nashat-ë-ah-ë-sahr gayi woh vaqar-ë-dast-ë-dua gaya.
چنگ و نے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لے بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ
Chang o nai rang pë thë apnë lahu kë dam së
Dil në lai badli toh maddham hua har saaz ka rang.
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
Aur bhi dukh hain zamanë mëin mohabbat kë siva
Rahatëin aur bhi hain vasl ki rahat kë siva.
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
Woh aa rahë hain woh aatë hain aa rahë hongë
Shab-ë-firaq yë këh kar guzar di hum në.
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
ایک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
Na jaanë kis liyë ummëëd-var baitha hoon
Ëk aisi raah pë jo tëri rahguzar bhi nahi.
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
Shaikh sahab së rasm-o-rah na ki
Shukr hai zindagi tabah na ki.
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
Har sada par lagë hain kaan yahan
Dil sambhalë raho zaban ki tarah.
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی
Dil së toh har moamla kar kë chalë thë saaf hum
Këhnë mëin un kë samnë baat badal badal gayi.
جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی
Javan-mardi usi rifat pë pahunchi
Jahan së buzdili në jast ki thi.
انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
Unhin kë faiz së bazar-ë-aql raushan hai
Jo gaah gaah junun ikhtiyar kartë rahë.
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
Sham-ë-firaq ab na puch aai aur aa kë tal gayi
Dil tha ki phir bahal gaya jaan thi ki phir sambhal gayi.
کرو کج جبیں پہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
Karo kaj jabin pë sar-ë-kafan mërë qaatilon ko guman na ho
Ki ghurur-ë-ishq ka bankpan pas-ë-marg hum në bhula diya.
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
Jal uthë bazm-ë-ghair kë dar-o-bam
Jab bhi hum khanuman-kharab aayë.
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
Hum parvarish-ë-lauh-o-qalam kartë rahëngë
Jo dil pë guzarti hai raqam kartë rahëngë.
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
Kab thahrëga dard ayë dil kab raat basar hogi
Suntë thë woh ayëngë suntë thë sahar hogi.
ایک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
ایک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
Ëk tarz-ë-taghaful hai so woh un ko mubarak
Ëk arz-ë-tamanna hai so hum kartë rahëngë.
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
Aayë toh yun ki jaisë humësha thë mëhrban
Bhulë toh yun ki goya kabhi ashna na thë.
دل ناامید تو نہیں نایکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
Dil na-ummëëd toh nahi nakam hi toh hai
Lambi hai gham ki shaam magar shaam hi toh hai.
Faiz Ahmad Faiz Ghazals
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بام مینا سے ماہتاب اترے
دست ساقی میں آفتاب آئے
ہر رگ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کی نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترک الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر