Top 300+ Rahat Indori Shayari, Ghazal, poetry

Rahat Indori was a prominent Indian poet, lyricist, and scholar known for his powerful and impactful contributions to Urdu literature. Born on January 1, 1950, in Indore, India, he gained widespread recognition for his unique style of poetry that seamlessly blended traditional Urdu forms with contemporary themes.

Indori’s verses often explored a range of topics, including love, society, politics, and human emotions. His poetry was marked by its accessibility, resonating with a diverse audience. Rahat Indori was not only celebrated for his written poetry but also for his engaging and charismatic recitations, which added an extra layer of dynamism to his work.

Apart from his poetic pursuits, Indori was a well-respected academic, having earned a PhD in Urdu literature. Rahat Indori held various academic positions and contributed significantly to the scholarly discourse on Urdu poetry.

Rahat Indori’s impact extended beyond the literary world as he ventured into Bollywood as a lyricist, leaving an indelible mark with his poetic contributions to Hindi film songs. His death on August 11, 2020, marked the end of an era in Urdu literature, but his legacy lives on through his timeless poetry and contributions to the cultural landscape of India. Explore more Poet’s Ghazal & Shayari like Jaun Elia, Mirza ghalib and more.

Rahat indori

Rahat Indori Shayari

आँख में पानी रखो, होंटों पे चिंगारी रखो
ज़िंदा रहना है तो तरकीबें बहुत सारी रखो

मुन्तज़िर हूँ कि सितारों की ज़रा आँख लगे
चाँद को छत पे बुला लूँगा इशारा कर के

प्यास अगर मेरी बुझा दे तो मैं जानू वरना
तू समंदर है तो होगा मेरे किस काम का है

रास्ते में फिर वही पैरों को चक्कर आ गया
जनवरी गुज़रा नहीं था और दिसंबर आ गया

जनाज़े पर मेरे लिख देना यारों
मोहब्बत करने वाला जा रहा है

हाथ खाली है तेरे शहर से जाते जाते
जान होती तो मेरी जान लुटाते जाते

दो गज़ सही मगर ये मेरी मिल्कियत तो है
ऐ मौत तूने मुझे ज़मींदार कर दिया

वो हिंदू, मैं मुस्लिम, ये सिक्ख, वो ईसाई
यार ये सब सियासत है चलो इश्क़ करें

मैं जब मर जाऊँ तो मेरी अलग पहचान लिख देना
लहू से मेरी पेशानी पे हिंदुस्तान लिख देना

दिल्ली से हम ही बोला करें अम्न की बोली
यारो तुम भी कभी लाहौर से बोलो

दिन ढल गया और रात गुज़रने की आस में
सूरज नदी में डूब गया, हम गिलास में

किसने दस्तक दी ये दिल पर, कौन है
आप तो अंदर हैं, बाहर कौन है

प्यास अगर मेरी बुझा दे तो मैं जानू वरना
तू समंदर है तो होगा मेरे किस काम का है

जो दुनिया को सुनाई दे उसे कहते हैं ख़ामोशी
जो आँखों में दिखाई दे उसे तूफ़ान कहते हैं

गुलाब, ख़्वाब, दवा, ज़हर, जाम क्या क्या है
मैं आ गया हूँ, बता इंतज़ाम क्या क्या है

तूफ़ानों से आँख मिलाओ सैलाबों पे वार करो
मल्लाहों का चक्कर छोड़ो तैर के दरिया पार करो

लोग हर मोड़ पे रुक रुक के सँभलते क्यूँ हैं
इतना डरते हैं तो फिर घर से निकलते क्यूँ हैं

देखो देखो जानम हम दिल अपना तेरे लिए लाए
सोचो सोचो दुनिया में क्यूँ आए तेरे लिए आए

अब न मैं वो हूँ न बाकी हैं ज़माने मेरे
फिर भी मशहूर हैं शहरों में फ़साने मेरे

मैं साँसें तक लुटा सकता हूँ उसके एक इशारे पर
मगर वो मेरे हर वादे को सरकारी समझता है

चराग़ों को उछाला जा रहा है
हवा पर रौब डाला जा रहा है

अपने हाकिम की फ़कीरी पे तरस आता है
जो ग़रीबों से पसीने की कमाई माँगे

कई दिनों से अँधेरों का बोलबाला है
चराग़ ले के पुकारो कहाँ उजाला

Rahat Indori Sad Shayari

کشتی تیرا نصیب چمکدار کر دِیا
اِس پار کے تھپیڑوں نے اٌس پار کر دِیا
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دِیا
دوگز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تٌو نے مٌجھے زمیندار کر دِیا

پھولوں کی دٌکانیں کھولو، خوشبو کا بیوپار کرو
عشق خطا ہے ،تو یہ خطا ایک بار نہیں سو بار کرو

طوفانوں سے آنکھ ملاو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کے چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہ دے کہ اوقات میں رہے

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہٌوا ہے۔۔۔ سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی اِک منڈی ہے
دروازے پہ لکھا ہٌوا ہے۔۔۔ سچ بولو

یہ سرحدّوں پر بہت تناٶ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چٌناٶ ہے کیا

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوٸ کام نِکل آتاہے

پٌرانے زخم ہیں کافی شمار کرنے کو
سو اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں مِلتے

Rahat Indori Romantic shayari

  • Aag ke paas kabhi mom ko lakar dekhu
  • ho ijazat to tuje hath laga kar dekhu..
  • Tufaano se aankh milao,sailaboo par war karo
  • mallahao ka chakkar chodo,tair kar daria paar karo..
  • mai jab mar jau meri alag pehchan likh dena
  • meri peshani pe lahu se hindustan likh dena…
  • Kisne dastak di ye dil par kaun hai
  • aap to andar ho ye bahar kaun hai..
  • Meri saaso me samaya bhi bahut lagta hai
  • wahi Shaks paraya bhi bahut lagta hai…
  • aur usse milne tamanna bhi bahut hai
  • magar aane jane me kiraya bhi bahut lagta hai…
  • Andhere charo tarf saaye-saaye karne lage
  • Chirag hath utha kar duaaye karne lage..
  • salikaa jinko seekhaya tha hamne chalne lage
  • Wo log aaj hume daaye-baaye karne lage..
  • Kabhi akele me mil kar janjhorr duga use
  • jaha jaha se wo toota hai jod duga use..
  • aur muje wo chod gaya ye kamal hai uska
  • irada maine kiya tha chod duga use…
  • Kashti tera naseeb chamakdar kar diya
  • iss paar ke thapedo ne uss par kar diya
  • aur afwah thi ke meri tabiyat kharab hai
  • logo ne pooch pooch ke bimar kar diya..
  • do gaj sahi ye milkiyat to hai
  • ay maut tune muje zamidaar kar diya..
  • Teri har baat mohabbat me gawara kar ke
  • dil ke bazar me baithe hai khasara karke
  • asmaan ki tarf fek diya hai maine
  • channd mitti ke chirago ko sitara karke…

Rahat Indori Ghazals

اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے

ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے

لہو لہان پڑا تھا زمیں پر اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے

زمیں پر آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو
بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے لگے

جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے
وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے

عجیب رنگ تھا مجلس کا خوب محفل تھی
سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے

سب کو رسوا باری باری کیا کرو

سب کو رسوا باری باری کیا کرو
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو

راتوں کا نیندوں سے رشتہ ٹوٹ چکا
اپنے گھر کی پہرے داری کیا کرو

قطرہ قطرہ شبنم گن کر کیا ہوگا
دریاؤں کی دعوے داری کیا کرو

روز قصیدے لکھو گونگے بہروں کے
فرصت ہو تو یہ بے گاری کیا کرو

شب بھر آنے والے دن کے خواب بنو
دن بھر فکر شب بے داری کیا کرو

چاند زیادہ روشن ہے تو رہنے دو
جگنو بھیا جی مت بھاری کیا کرو

جب جی چاہے موت بچھا دو بستی میں
لیکن باتیں پیاری پیاری کیا کرو

رات بدن دریا میں روز اترتی ہے
اس کشتی میں خوب سواری کیا کرو

روز وہی اک کوشش زندہ رہنے کی
مرنے کی بھی کچھ تیاری کیا کرو

خواب لپیٹے سوتے رہنا ٹھیک نہیں
فرصت ہو تو شب بے داری کیا کرو

کاغذ کو سب سونپ دیا یہ ٹھیک نہیں
شعر کبھی خود پر بھی طاری کیا کرو

اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا

اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا
نگے بھوکے بیچاروں سے کیا لینا

اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا

اُٹھا شمشیر دِکھا اپنا ہنر کیا لے گا

اُٹھا شمشیر دِکھا اپنا ہنر کیا لے گا؟؟
یہ رہی جان، یہ ہے گردن، یہ سر کیا لے گا

صرف اک شعر اڑا دے گا پرخچے تیرے
تو سمجھتا ہے کہ شاعر ہے یہ کر کیا لے گا

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

میں جانتا تھا کہ زہریلا سانپ بن بن کر
ترا خلوص مری آستیں سے نکلے گا

اسی گلی میں وہ بھوکا فقیر رہتا تھا
تلاش کیجے خزانہ یہیں سے نکلے گا

بزرگ کہتے تھے اک وقت آئے گا جس دن
جہاں پہ ڈوبے گا سورج وہیں سے نکلے گا

گزشتہ سال کے زخمو ہرے بھرے رہنا
جلوس اب کے برس بھی یہیں سے نکلے گا

سوال گھر نہیں بنیاد پر اٹھایا ہے

سوال گھر نہیں بنیاد پر اٹھایا ہے
ہمارے پاؤں کی مٹی نے سر اٹھایا ہے

ہمیشہ سر پہ رہی اک چٹان رشتوں کی
یہ بوجھ وہ ہے جسے عمر بھر اٹھایا ہے

مری غلیل کے پتھر کا کارنامہ تھا
مگر یہ کون ہے جس نے ثمر اٹھایا ہے

یہی زمیں میں دبائے گا ایک دن ہم کو
یہ آسمان جسے دوش پر اٹھایا ہے

بلندیوں کو پتہ چل گیا کہ پھر میں نے
ہوا کا ٹوٹا ہوا ایک پر اٹھایا ہے

مہا بلی سے بغاوت بہت ضروری ہے
قدم یہ ہم نے سمجھ سوچ کر اٹھایا ہے

بیر دنیا سے قبیلے سے لڑائی لیتے

بیر دنیا سے قبیلے سے لڑائی لیتے
ایک سچ کے لئے کس کس سے برائی لیتے

آبلے اپنے ہی انگاروں کے تازہ ہیں ابھی
لوگ کیوں آگ ہتھیلی پہ پرائی لیتے

برف کی طرح دسمبر کا سفر ہوتا ہے
ہم اسے ساتھ نہ لیتے تو رضائی لیتے

کتنا مانوس سا ہمدردوں کا یہ درد رہا
عشق کچھ روگ نہیں تھا جو دوائی لیتے

چاند راتوں میں ہمیں ڈستا ہے دن میں سورج
شرم آتی ہے اندھیروں سے کمائی لیتے

تم نے جو توڑ دیے خواب ہم ان کے بدلے
کوئی قیمت کبھی لیتے تو خدائی لیتے

Rahat Indori Nazam

چہروں کی دھوپ آنکھوں کی گہرائی لے گیا

چہروں کی دھوپ آنکھوں کی گہرائی لے گیا
آئینہ سارے شہر کی بینائی لے گیا

ڈوبے ہوئے جہاز پہ کیا تبصرہ کریں
یہ حادثہ تو سوچ کی گہرائی لے گیا

حالانکہ بے زبان تھا لیکن عجیب تھا
جو شخص مجھ سے چھین کے گویائی لے گیا

میں آج اپنے گھر سے نکلنے نہ پاؤں گا
بس اک قمیص تھی جو مرا بھائی لے گیا

غالبؔ تمہارے واسطے اب کچھ نہیں رہا
گلیوں کے سارے سنگ تو سودائی لے گیا

سچ بولو

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا، سچ بولو
سرکاری اعلان ہواہے، سچ بولو

گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے، سچ بولو

گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے
گلدستے کے اندر کیا ہے، سچ بولو

گنگا میّا، ڈوبنے والے اپنے تھے
ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بولو

اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے

ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے

لہو لہان پڑا تھا زمیں پر اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے

زمیں پر آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو
بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے لگے

جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے
وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے

عجیب رنگ تھا مجلس کا خوب محفل تھی
سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *